Admin Admin
Number of posts : 108 Registration date : 2007-10-08
| Subject: INSANI DIL WA DIMAG KI MORMATH Fri Nov 23, 2007 4:36 pm | |
| سائنسدانوں نے انسانی جلد کے خلیوں کی ایک ایسی نئی ترتیب دریافت کر لی ہے جس کے نتیجے میں وہ جنین سے مشابہ یا ملتی جلتی نمو پا سکنے والے خلیوں کی طرح انسانی جسم کے کسی بھی ریشے کی شکل اختیار کر سکیں گے۔ یہ کامیابی سائنسدانوں کے دو گروہوں نے بیک وقت حاصل کی ہے۔ اس کامیابی کے نتیجے میں ایسی تحقیقات کرنے کے لیے خلیوں کے حصول کا ایک ایسا نیا ذریعہ حاصل ہو جائے گا جس کے نتیجے میں بہت سی بیماریوں کے علاج دریافت کرنا ممکن ہو سکے گا۔
اس دریافت کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اب خلیوں کے حصول کے لیے انسانی جنین پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ تحقیقات میں انسانی جنین سے خلیوں کے حصول کو انتہائی متنازع تصور کیا جاتا تھا۔
اس بارے میں جاپان اور امریکہ میں کی جانے والی تحقیقات کو رپورٹیں سائنس اور خلیوں کے جریدوں میں شائع ہوئی ہیں۔
اب تک یہ تصور پایا جاتا تھا کہ تحقیقات کے لیے درکار انسانی جنین سے لیے جانے والے خلیوں میں ہی یہ امکان پایا جاتا ہے کہ وہ انسانی جسم کے دو سو بیس اقسام کے خلیوں کے طور پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
تاہم اس کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ سائنس کے نام پر انسانی جنین کو تباہ کرنا غیر اخلاقی امر ہے۔
امریکہ میں بھی ان سائنسدانوں کو تحقیقات کے دوران جنینی خلیوں کے انتہائی محدود استعمال کی اجازت ہے جنہیں تحقیقات کے لیے حکومت سرمایہ یا فنڈز فراہم کرتی ہے۔
جنین سے خلیوں کا حصول ختم اب تک یہ تصور پایا جاتا تھا کہ تحقیقات کے لیے درکار انسانی جنین سے لیے جانے والے خلیوں میں ہی یہ امکان پایا جاتا ہے کہ وہ انسانی جسم کے دو سو بیس اقسام کے خلیوں کے طور پر استعمال کیے جا سکتے ہیں
جاپانی ٹیم اس مقصد کے لیے ایسا محلول کیمیائی آمیزہ استعمال کیا ہے جس میں چار ایسے جینی کنٹرولنگ لحمیاتی عناصر ہوتے ہیں جن کے ذریعے حاصل کیے گئے بالغ انسانی خلیوں کی نمو کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔
سائنسدانوں نے جو خلیے بنائے ہیں وہ انسانی جنین کے خلیوں کے مشابہ تو ہیں لیکن مماثل نہیں ہیں لیکن ایسے ہیں کہ انہیں انسانی دل اور دماغ کے ریشے بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کہا گیا ہے کہ تجربہ گاہ میں ایسے خلیوں نے بارہ دن میں دل سے مشابہ شکل اختیار کی اور دھڑکنا شروع کر دیا۔ یہی کامیابی امریکہ کی ویسکوسن میڈیسن یونیورسٹی نے بھی قدرے مختلف کیمیائی ترتیب کے استعمال سے حاصل کی۔ | |
|